غزل
نصیرؔ ترابی
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اُس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اُس کو
نظر نہ آئے تو اسکی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اُس کو
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اُس کو
وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اُس کو
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اُس کو
وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو
ابھی سے جانا بھی کیا اس کی کم خیالی پر
ابھی تو اور بہت ہو گا سوچنا اُس کو
ابھی تو اور بہت ہو گا سوچنا اُس کو
اسے یہ دُھن کہ مجھے کم سے کم اداس رکھے
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اُس کو
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اُس کو
پناہ ڈھونڈ رہی ہے شبِ گرفتا دلاں
کوئی پتاؤ مرے گھر کا راستا اُس کو
کوئی پتاؤ مرے گھر کا راستا اُس کو
غزل میں تذکزہ اس کا نہ کر نصیرؔ کہ اب
بھلا چکا وہ تجھے تو بھی بھول جا اُس کو
بھلا چکا وہ تجھے تو بھی بھول جا اُس کو
س ہی کی گلی سے گزر گئی کیسے۔۔؟
میں ہوش میں تھی تو اس پہ مرگئی کیسے،
یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے
یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے
،
کچھ اس کے دل میں لگاوٹ ضرور تھی ورنہ،
وہ میرا ہاتھ دبا کر گزر گیا کیسے
کچھ اس کے دل میں لگاوٹ ضرور تھی ورنہ،
وہ میرا ہاتھ دبا کر گزر گیا کیسے
،
ضرور اس کی توجہ کی رہبری ہوگی،
نشے میں تھی تو میں اپنے ہی گھر گئی کیسے
ضرور اس کی توجہ کی رہبری ہوگی،
نشے میں تھی تو میں اپنے ہی گھر گئی کیسے
،
جسے بھلائے کئی سال ہوگئے کامل،
میں آج اس ہی کی گلی سے گزر گئی کیسے۔۔؟
جسے بھلائے کئی سال ہوگئے کامل،
میں آج اس ہی کی گلی سے گزر گئی کیسے۔۔؟
ﺍﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ !
ﺟﮩﺎﮞ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﺑﭽﮭﮍﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭُﺕ ﮨﻮ، ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻮﺳﻢ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ
ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮ ﻟﮑﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﻮﺋﯽ
ﺗﻌﻠﻖ چاہے ﮐﯿﺴﺎ ﮨﻮ
ﺑﺎﻵﺧﺮ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺑﮭﺮ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﻧﮯ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮯ ﭘﺮ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺮ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺟﮩﺎﮞ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﺑﭽﮭﮍﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭُﺕ ﮨﻮ، ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻮﺳﻢ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ
ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮ ﻟﮑﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﻮﺋﯽ
ﺗﻌﻠﻖ چاہے ﮐﯿﺴﺎ ﮨﻮ
ﺑﺎﻵﺧﺮ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺑﮭﺮ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﻧﮯ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮯ ﭘﺮ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺮ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ایک بات کہی فلک سے ٹوٹے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
خود اپنی ذات سے ہارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
شجر لگانے پہ دریا نے ایک بات کہی
تمھی تو ہو جو کنارے کا دکھ سمجھتے ہو
تمہیں حساب پہ ہے کتنی دسترس لیکن
محبتوں میں خسارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
ہمارے ہنسنے پہ تم رو دیے ، تو ظاہر ہے
دلوں کو چیرتے آرے کا دکھ سمجھتے ہو..
ہمارا اس سے بچھڑنے کا دکھ سمجھ لو گے؟
سحر سے ڈرتے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
پھنسی ہوئی ہے ٹریفک کی بھیڑ میں وہ جہاں
وہاں کے سرخ اشارے کا دکھ سمجھتے ہو؟..
خود اپنی ذات سے ہارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
شجر لگانے پہ دریا نے ایک بات کہی
تمھی تو ہو جو کنارے کا دکھ سمجھتے ہو
تمہیں حساب پہ ہے کتنی دسترس لیکن
محبتوں میں خسارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
ہمارے ہنسنے پہ تم رو دیے ، تو ظاہر ہے
دلوں کو چیرتے آرے کا دکھ سمجھتے ہو..
ہمارا اس سے بچھڑنے کا دکھ سمجھ لو گے؟
سحر سے ڈرتے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
پھنسی ہوئی ہے ٹریفک کی بھیڑ میں وہ جہاں
وہاں کے سرخ اشارے کا دکھ سمجھتے ہو؟..
ﺗﺠﮭﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﮐﮭﮯ
ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﮧ ﮨﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﺭﮐﮭﮯ
ﮐﺲ ﮐﻮ ﺳﯿﺮﺍﺏ ﮐﺮﮮ ﻭﮦ ﮐﺴﮯ ﭘﯿﺎﺳﺎ ﺭﮐﮭﮯ
ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﻮﻥ ﻧﺒﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﺗﻨﺎ
ﺍﮮ ﻣﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﮐﮭﮯ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﮬﻢ ﻧﺎﻡ ﺗﺮﺍ
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺠﮫ ﺳﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺗﺠﮫ ﺳﺎ ﺭﮐﮭﮯ
ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﮮ ﻧﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﮐﮭﮯ
ﮨﻨﺲ ﻧﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻓﻘﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﭘﻦ ﭘﺮ
ﺟﺎ، ﺧﺪﺍ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﻨﮩﺎ ﺭﮐﮭﮯ
ﯾﮧ ﻗﻨﺎﻋﺖ ﮨﮯ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﮯ ﻓﺮﺍﺯ
ﮨﻢ ﺗﻮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﺲ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎ ﺭﮐﮭﮯ
ﮐﺲ ﮐﻮ ﺳﯿﺮﺍﺏ ﮐﺮﮮ ﻭﮦ ﮐﺴﮯ ﭘﯿﺎﺳﺎ ﺭﮐﮭﮯ
ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﻮﻥ ﻧﺒﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﺗﻨﺎ
ﺍﮮ ﻣﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﮐﮭﮯ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﮬﻢ ﻧﺎﻡ ﺗﺮﺍ
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺠﮫ ﺳﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺗﺠﮫ ﺳﺎ ﺭﮐﮭﮯ
ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﮮ ﻧﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﮐﮭﮯ
ﮨﻨﺲ ﻧﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻓﻘﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﭘﻦ ﭘﺮ
ﺟﺎ، ﺧﺪﺍ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﻨﮩﺎ ﺭﮐﮭﮯ
ﯾﮧ ﻗﻨﺎﻋﺖ ﮨﮯ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﮯ ﻓﺮﺍﺯ
ﮨﻢ ﺗﻮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﺲ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎ ﺭﮐﮭﮯ
پوشاک لیے پھرتے ہیں
ایسے ویسے یہاں افلاک لیے پھرتے ہیں
دامنِ زیست میں ہم خاک لیے پھرتے ہیں
لوگ ہر روز بدلتے ہیں ____تعلق کا لباس
اور ہم ایک ہی __ پوشاک لیے پھرتے ہیں
سڑک کنارے
سڑک کنارے بیٹھا تھا
کوئی جوگی تھا یا روگی تھا
کیا جوگ سجائے بیٹھا تھا ؟
کیا روگ لگائے بیٹھا تھا ؟
دامنِ زیست میں ہم خاک لیے پھرتے ہیں
لوگ ہر روز بدلتے ہیں ____تعلق کا لباس
اور ہم ایک ہی __ پوشاک لیے پھرتے ہیں
سڑک کنارے
سڑک کنارے بیٹھا تھا
کوئی جوگی تھا یا روگی تھا
کیا جوگ سجائے بیٹھا تھا ؟
کیا روگ لگائے بیٹھا تھا ؟
تھی چہرے پر زردی چھائی
اور نیناں اشک بہاتے تھے
تھے گیسو بکھرے بکھرے سے
جو دوشِ ھوا لہراتے تھے
تھا اپنے آپ سے کچھ کہتا
اور خود سن کے ھنس دیتا تھا
کوئی غم کا مارا لگتا تھا
کوئی دکھیاراسا لگتا تھا
اس جوگی کو جب دیکھتے تھے
ھر بار یہی ھم سوچتے تھے
کیا روگ لگا ھے روگی کو
کس شے کا سوگ ھے جوگی کو ؟
اک دن اس نے کوچ کیا
اور سارے دھندے چھوڑ گیا
وہ جوگی ، روگی ، سیلانی
سارے ھی پھندے توڑ گیا
پھر اپنا قصہ شروع ھوا
اک مورت دل میں آ بیٹھی
نین نشیلے ، ھونٹ رسیلے
چال عجب متوالی سی
روپ سنہرا ، چاند سا چہرا
زلفیں کالی کالی سی
ھنسے تو پائل بجتی تھی
روئے تو جل تھل ھو جائے
بینا کی لے تھی لہجے میں
کہ سننے والا سو جائے
وہ چلے تو دنیا ساتھ چلے
جو رکے تو عالم تھم جائے
ھو ساتھ تو دھڑکن تیز چلے
دوری سے سانس یہ جم جائے
کچھ قسمیں ، وعدے ، قول ھوئے
انمول تھے وہ ، بِن مول ھوئے
تھے سونے جیسے دن سارے
راتیں سب چاندی کی تھیں
امبر کا رنگ سنہرا تھا
جہاں قوس و قزاح کا پہرا تھا
اک دن یونہی بیٹھے بیٹھے
کچھ بحث ھوئی ، تکرار ھوئی
وہ چلدی روٹھ کے بس یونہی
میں سوچ میں تھا بیکار ھوئی
کچھ دن گذرے پھر ہفتہ بھی
نا دیکھا ، نا ملاقات ہی کی
ناراض تھی وہ ، ناراض رہی
نا فون پہ اس نے بات ہی کی
جب ملی تو صاف ہی کہہ ڈالا
وہ بچپن تھا نادانی تھی
کیا دل سے لگائے بیٹھے ھو ؟
وہ سب کچھ ایک کہانی تھی
تھی دل پہ بیتی کیا اس پل ؟
تم لوگ سمجھ نہ پاؤگے
جب تم پر یہ سب بیتے گا
یہ روگ سمجھ ہی جاؤ گے
سب یاد دلائے عہدِ وفا
وہ قسمیں، قول، قرار سبھی
سکھ، دکھ میں ساتھ نبھانے کے
وہ وعدے اور اقرار سبھی
وہ ہنس کے بولی ، پاگل ہو ؟
کبھی وعدے پورے ھوتے ہیں ؟
کیا اتنا بھی معلوم نہیں ؟
یہ عہد ادھورے ھوتے ہیں
تمہیں علم نہیں نادان ھو تم
کب قسم نبھائی جاتی ھے ؟
کس دیس کے رھنے والے ہو ؟
یہ قسم تو کھائی جاتی ہے
وہ ہنس کے چلدی راہ اپنی
اور صبر کا دامن چھوٹ گیا
آنکھوں سے جھیلیں بہہ نکلیں
اور ضبط بھی ہم سے روٹھ گیا
میں آج وہاں پر بیٹھا ھوں
جس جگہ پہ کل وہ جوگی تھا
یہ آج سمجھ میں آیا ہے
کس چیز کا آخر روگی تھا
اور نیناں اشک بہاتے تھے
تھے گیسو بکھرے بکھرے سے
جو دوشِ ھوا لہراتے تھے
تھا اپنے آپ سے کچھ کہتا
اور خود سن کے ھنس دیتا تھا
کوئی غم کا مارا لگتا تھا
کوئی دکھیاراسا لگتا تھا
اس جوگی کو جب دیکھتے تھے
ھر بار یہی ھم سوچتے تھے
کیا روگ لگا ھے روگی کو
کس شے کا سوگ ھے جوگی کو ؟
اک دن اس نے کوچ کیا
اور سارے دھندے چھوڑ گیا
وہ جوگی ، روگی ، سیلانی
سارے ھی پھندے توڑ گیا
پھر اپنا قصہ شروع ھوا
اک مورت دل میں آ بیٹھی
نین نشیلے ، ھونٹ رسیلے
چال عجب متوالی سی
روپ سنہرا ، چاند سا چہرا
زلفیں کالی کالی سی
ھنسے تو پائل بجتی تھی
روئے تو جل تھل ھو جائے
بینا کی لے تھی لہجے میں
کہ سننے والا سو جائے
وہ چلے تو دنیا ساتھ چلے
جو رکے تو عالم تھم جائے
ھو ساتھ تو دھڑکن تیز چلے
دوری سے سانس یہ جم جائے
کچھ قسمیں ، وعدے ، قول ھوئے
انمول تھے وہ ، بِن مول ھوئے
تھے سونے جیسے دن سارے
راتیں سب چاندی کی تھیں
امبر کا رنگ سنہرا تھا
جہاں قوس و قزاح کا پہرا تھا
اک دن یونہی بیٹھے بیٹھے
کچھ بحث ھوئی ، تکرار ھوئی
وہ چلدی روٹھ کے بس یونہی
میں سوچ میں تھا بیکار ھوئی
کچھ دن گذرے پھر ہفتہ بھی
نا دیکھا ، نا ملاقات ہی کی
ناراض تھی وہ ، ناراض رہی
نا فون پہ اس نے بات ہی کی
جب ملی تو صاف ہی کہہ ڈالا
وہ بچپن تھا نادانی تھی
کیا دل سے لگائے بیٹھے ھو ؟
وہ سب کچھ ایک کہانی تھی
تھی دل پہ بیتی کیا اس پل ؟
تم لوگ سمجھ نہ پاؤگے
جب تم پر یہ سب بیتے گا
یہ روگ سمجھ ہی جاؤ گے
سب یاد دلائے عہدِ وفا
وہ قسمیں، قول، قرار سبھی
سکھ، دکھ میں ساتھ نبھانے کے
وہ وعدے اور اقرار سبھی
وہ ہنس کے بولی ، پاگل ہو ؟
کبھی وعدے پورے ھوتے ہیں ؟
کیا اتنا بھی معلوم نہیں ؟
یہ عہد ادھورے ھوتے ہیں
تمہیں علم نہیں نادان ھو تم
کب قسم نبھائی جاتی ھے ؟
کس دیس کے رھنے والے ہو ؟
یہ قسم تو کھائی جاتی ہے
وہ ہنس کے چلدی راہ اپنی
اور صبر کا دامن چھوٹ گیا
آنکھوں سے جھیلیں بہہ نکلیں
اور ضبط بھی ہم سے روٹھ گیا
میں آج وہاں پر بیٹھا ھوں
جس جگہ پہ کل وہ جوگی تھا
یہ آج سمجھ میں آیا ہے
کس چیز کا آخر روگی تھا
No comments:
Post a Comment