Allama Iqbal Poetry, Ghazals & Shayari - Urdu Poetry

Latest

Express your feeling with World largest collection

Saturday 31 August 2019

Allama Iqbal Poetry, Ghazals & Shayari


https://www.blogger.com/blogger.g?blogID=4270642625812931495#allposts/src=sidebar

Sitaron Se Agay Jahan Aur Bhi Hain 

Sitaron Se Agay Jahan Aur Bhi Hain
Abhi Ishq Ke Imtihan Aur Bhi Hain

Tehi, Zindagi Se Nahin Ye Fazaen
Yahan Saikron Karwan Aur Bhi Hain

Qanaat Na Kar Alam-e-Rang-o-Bu Par
Chaman Aur Bhi Ashiyan Aur Bhi Hain

Agar Kho Gya Ek Nasheeman To Kya Gham
Maqamat-e-Aah-o-Faghan Aur Bhi Hain

Tu Shaheen Hai, Parwaz Hai Kaam Tera
Tere Samne Asman Aur Bhi Hain

Issi Roz-o-Shab Mein Ulajh Kar Na Reh Ja
Ke Tere Zaman-o-Makan Aur Bhi Hain

Gye Din Ke Tanha Tha Main Anjuman Mein
Yahan Ab Mere Raazdaan Aur Bhi Hain

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا 


زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا

کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا

نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا


 
نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی



زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا

کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا

نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا


زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا  


زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا

کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا

نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا

 




گرچہ تو زنداني اسباب ہے
گرچہ تو زنداني اسباب ہے
قلب کو ليکن ذرا آزاد رکھ

عقل کو تنقيد سے فرصت نہيں
عشق پر اعمال کي بنياد رکھ

اے مسلماں! ہر گھڑي پيش نظر
آيہ 'لا يخلف الميعاد' رکھ

يہ 'لسان العصر' کا پيغام ہے
"ان وعد اللہ حق'' ياد رکھ" 
خردمندوں سے کيا پوچھوں
خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميری ابتدا کيا ہے
کہ ميں اس فکر ميں رہتا ہوں ، ميری انتہا کيا ہے

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے ميں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبريا کيا ہے

شاہيں
الفاظ و معاني ميں تفاوت نہيں ليکن
ملا کي اذاں اور مجاہد کي اذاں اور

پرواز ہے دونوں کي اسي ايک فضا ميں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہيں کا جہاں اور
 ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
دنیا نہیں مردان جفاکش کے لیے تنگ

چیتے کا جگر چاہیئے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ

کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ

بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ
یہ دیر کہن کیا ہے انبار خس و خاشاک 
یہ دیر کہن کیا ہے انبار خس و خاشاک
مشکل ہے گزر اس میں بے نالۂ آتش ناک

نخچیر محبت کا قصہ نہیں طولانی
لطف خلش پیکاں آسودگئ فتراک

کھویا گیا جو مطلب ہفتاد و دو ملت میں
سمجھے گا نہ تو جب تک بے رنگ نہ ہو ادراک

اک شرع مسلمانی اک جذب مسلمانی
ہے جذب مسلمانی سر فلک الافلاک

اے رہرو فرزانہ بے جذب مسلمانی
نے راہ عمل پیدا نے شاخ یقیں نمناک

رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بیباکی
ہر شوق نہیں گستاخ ہر جذب نہیں بیباک

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
 
 یہ پیران کلیسا و حرم اے وائے مجبوری  
 یہ پیران کلیسا و حرم اے وائے مجبوری
صلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری

یقیں پیدا کر اے ناداں یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری

کبھی حیرت کبھی مستی کبھی آہ سحرگاہی
بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا درد مہجوری

حد ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی
سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے دوری

وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی
مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری

کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ
نہ تھے ترکان عثمانی سے کم ترکان تیموری

فقیران حرم کے ہاتھ اقبالؔ آ گیا کیونکر
میسر میر و سلطاں کو نہیں شاہین کافوری 
 مرد مجاہد
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار

وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار


یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز
یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز
اندیشۂ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز

گو فقر بھی رکھتا ہے انداز ملوکانہ
ناپختہ ہے پرویزی بے سلطنت پرویز

اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خون دل شیراں ہو، جس فقر کی دستاویز

اے حلقۂ درویشاں وہ مرد خدا کیسا
ہو جس کے گریباں میں ہنگامۂ رستاخیز

جو ذکر کی گرمی سے شعلے کی طرح روشن
جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز

کرتی ہے ملوکیت آثار جنوں پیدا
اللہ کے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز

یوں داد سخن مجھ کو دیتے ہیں عراق و پارس
یہ کافر ہندی ہے بے تیغ و سناں خوں ریز 
  ضمیر لالہ مۂ لعل سے ہوا لبریز
 ضمیر لالہ مۂ لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز

بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی
کیا ہے اس نے فقیروں کو وارث پرویز

پرانے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیئے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز

کسے خبر ہے کہ ہنگامۂ نشور ہے کیا
تری نگاہ کی گردش ہے میری رستاخیز

نہ چھین لذت آہ سحرگہی مجھ سے
نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز

دل غمیں کے موافق نہیں ہے موسم گل
صدائے مرغ چمن ہے بہت نشاط انگیز

حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ ستیز 
 فطرت کو خرد کے روبرو
فطرت کو خرد کے روبرو
تسخیر مقام رنگ و بو کر
تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
تاروں کی فضا ہے بیکرانہ
تو بھی یہ مقام آرزو کر
عریاں ہیں ترے چمن کی حوریں
چاک گل و لالہ کو رفو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر

No comments: