"غزل"
پروین شاکر
دل کی بربادی کا کوئی سِلسلہ پہلے سے تھا
اِس چراغِ شب پہ الطافِ ہَوا پہلے سے تھا
اِس چراغِ شب پہ الطافِ ہَوا پہلے سے تھا
اُس کے یُوں ترکِ مُحبّت کا سبب ہو گا کوئی
جی نہیں مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
جی نہیں مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
دونوں اپنی زندگی کے جَھٹپٹے میں ہیں مگر
اِس طرح مِلنا مُقدّر میں لِکھا پہلے سے تھا
اِس طرح مِلنا مُقدّر میں لِکھا پہلے سے تھا
اب تو زخمِ دل نمک خوارِ توجّہ ہے تِرا
نام پر جاری تِرے حرفِ دُعا پہلے سے تھا
نام پر جاری تِرے حرفِ دُعا پہلے سے تھا
راستہ بُھولا نہیں اب کے پرندِ خوُش خبر
اور کُچھ اُجڑا ہُوا شہرِ سَبا پہلے سے تھا
اور کُچھ اُجڑا ہُوا شہرِ سَبا پہلے سے تھا
تیرے آنے سے تو بَس زنجیر ہی بدلی گئی
ہم اَسیروں پر جَفا کا باب وَا پہلے سے تھ
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا
تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا
اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا
ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا
لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا
دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر
دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر
پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر
سرخ سرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر
جسم و جاں سے اترے گی گرد پچھلے موسم کی
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر
ساری رات سوتے میں مسکرا رہا تھا وہ
جیسے کوئی سپنا سا کانپتا تھا ہونٹوں پر
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
لہر لہر کرنوں کو چھیڑ کر گزرتی ہے
چاندنی اترتی ہے جب شریر جھرنوں پر
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم
خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم
بچھڑ گیا تری صورت بہار کا موسم
کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم
وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لوٹ آئے
سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم
پیام آیا ہے پھر ایک سرو قامت کا
مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم
وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے
مرے بدن کو ملا ہے چنار کا موسم
رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر
گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم
ہوا چلی تو نئی بارشیں بھی ساتھ آئیں
زمیں کے چہرے پہ آیا نکھار کا موسم
وہ میرا نام لیے جائے اور میں اس کا نام
لہو میں گونج رہا ہے پکار کا موسم
قدم رکھے مری خوشبو کہ گھر کو لوٹ آئے
کوئی بتائے مجھے کوئے یار کا موسم
وہ روز آ کے مجھے اپنا پیار پہنائے
مرا غرور ہے بیلے کے ہار کا موسم
ترے طریق محبت پہ بارہا سوچا
یہ جبر تھا کہ ترے اختیار کا موسم
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا
تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا
اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا
ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا
لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا
دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر
دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر
پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر
سرخ سرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر
جسم و جاں سے اترے گی گرد پچھلے موسم کی
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر
ساری رات سوتے میں مسکرا رہا تھا وہ
جیسے کوئی سپنا سا کانپتا تھا ہونٹوں پر
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
لہر لہر کرنوں کو چھیڑ کر گزرتی ہے
چاندنی اترتی ہے جب شریر جھرنوں پر
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم
خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم
بچھڑ گیا تری صورت بہار کا موسم
کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم
وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لوٹ آئے
سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم
پیام آیا ہے پھر ایک سرو قامت کا
مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم
وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے
مرے بدن کو ملا ہے چنار کا موسم
رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر
گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم
ہوا چلی تو نئی بارشیں بھی ساتھ آئیں
زمیں کے چہرے پہ آیا نکھار کا موسم
وہ میرا نام لیے جائے اور میں اس کا نام
لہو میں گونج رہا ہے پکار کا موسم
قدم رکھے مری خوشبو کہ گھر کو لوٹ آئے
کوئی بتائے مجھے کوئے یار کا موسم
وہ روز آ کے مجھے اپنا پیار پہنائے
مرا غرور ہے بیلے کے ہار کا موسم
ترے طریق محبت پہ بارہا سوچا
یہ جبر تھا کہ ترے اختیار کا موسم
غزل
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو - نصیر ترابی
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اُس کو
نظر نہ آئے تو اسکی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اُس کو
وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اُس کو
وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو
ابھی سے جانا بھی کیا اس کی کم خیالی پر
ابھی تو اور بہت ہو گا سوچنا اُس کو
اسے یہ دُھن کہ مجھے کم سے کم اداس رکھے
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اُس کو
پناہ ڈھونڈ رہی ہے شبِ گرفتا دلاں
کوئی پتاؤ مرے گھر کا راستا اُس کو
غزل میں تذکزہ اس کا نہ کر نصیرؔ کہ اب
بھلا چکا وہ تجھے تو بھی بھول جا اُس کو
داستان
میں تو ہم خیال تھی تیری
یہی داستان تھی نہ تیری
اب کیا کوۂی اور بن گہی ہم خیال تیری
ایسے ہی خیالوں میں چھوڑ مجھے
کہاں راہ میں لا کر راہ بدل گہی تیری
غزل
میں نے ہجر کی کالی راتوں میں اک تیری آس لگائی ہے
میں نے ہجر کی کالی راتوں میں اک تیری آس لگائی ہے
میرا روم روم ہے چھلنی سا میری زات میں بس تنہائی ہے
ہم آسمان ہو جاتے
چُپ نہ رہتے بیان ہو جاتے
تجھ سے گر بدگُمان ہو جاتے
تیرے دل کی زمین ہی نہ مِلی
ورنہ ہم آسمان ہو جاتے
ڈھونڈتا وہ بھی
میں اُس کی کھوج میں دیوانہ وار پھرتی رہی
اسی لگن سے کبھی مجھ کو ڈھونڈتا وہ بھی
کیا دیکھے۔۔
تیرے سوا بھی کئی رنگ خوش نظر تھےمگر۔۔
جو تجھ کو دیکھ چکا ہو وہ اور کیا دیکھے۔۔!!
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو - نصیر ترابی
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اُس کو
نظر نہ آئے تو اسکی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اُس کو
وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اُس کو
وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو
ابھی سے جانا بھی کیا اس کی کم خیالی پر
ابھی تو اور بہت ہو گا سوچنا اُس کو
اسے یہ دُھن کہ مجھے کم سے کم اداس رکھے
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اُس کو
پناہ ڈھونڈ رہی ہے شبِ گرفتا دلاں
کوئی پتاؤ مرے گھر کا راستا اُس کو
غزل میں تذکزہ اس کا نہ کر نصیرؔ کہ اب
بھلا چکا وہ تجھے تو بھی بھول جا اُس کو
داستان
میں تو ہم خیال تھی تیری
یہی داستان تھی نہ تیری
اب کیا کوۂی اور بن گہی ہم خیال تیری
ایسے ہی خیالوں میں چھوڑ مجھے
کہاں راہ میں لا کر راہ بدل گہی تیری
غزل
میں نے ہجر کی کالی راتوں میں اک تیری آس لگائی ہے
میں نے ہجر کی کالی راتوں میں اک تیری آس لگائی ہے
میرا روم روم ہے چھلنی سا میری زات میں بس تنہائی ہے
تم سمجھو نہ میری مشکل کو کیوں اتنی مایوسی ہے
تیرے ساتھ کی منزل دور بہت اور قدم قدم رسوائی ہے
یہاں نوچنے کو بیتاب ہے دنیا جو بھی مجھ میں ہے باقی
تیرا عشق ہے میری ذات مگر میری زات تیری پرچھائی ہے
کبھی خواب میسر تھے مجھ کو کبھی نیند کے جھونکے آتے تھے
اب اشک اشک زد ماتم ہے اور سانس سانس میں دہائی ہے
مجھے زخم تمنا کیا دو گے مجھے درد محبت کیا دو گے
نہیں خود سے بھی کوئ ربط رہا ہوئ تجھ سے جو شناسائی ہے
دُلہن کی خوشبو
آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
رات بھر جاگی ہوئی جیسے دُلہن کی خوشبو
پیرہن میرا مگر اُس کے بدن کی خوشبو
اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو
موجہ گُل کو ابھی اِذنِ تکلم نہ ملے
پاس آتی ہے کسی نرم سخن کی خوشبو
قامتِ شعر کی زیبائی کا عالم مت پُوچھ
مہرباں جب سے ہے اُس سرد بدن کی خوشبو
ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے
کُوبہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو
عارضِ گُل کو چُھوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو
کِس نے زنجیر کیا ہے رمِ آہو چشماں
نکہتِ جاں ہے انھیں دشت ودمن کی خوشبو
اِس اسیری میں بھی ہر سانس کے ساتھ آتی ہے
صحنِ زنداں میں اِنھیں دشت وطن کی خوشبو
تیرے ساتھ کی منزل دور بہت اور قدم قدم رسوائی ہے
یہاں نوچنے کو بیتاب ہے دنیا جو بھی مجھ میں ہے باقی
تیرا عشق ہے میری ذات مگر میری زات تیری پرچھائی ہے
کبھی خواب میسر تھے مجھ کو کبھی نیند کے جھونکے آتے تھے
اب اشک اشک زد ماتم ہے اور سانس سانس میں دہائی ہے
مجھے زخم تمنا کیا دو گے مجھے درد محبت کیا دو گے
نہیں خود سے بھی کوئ ربط رہا ہوئ تجھ سے جو شناسائی ہے
دُلہن کی خوشبو
آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
رات بھر جاگی ہوئی جیسے دُلہن کی خوشبو
پیرہن میرا مگر اُس کے بدن کی خوشبو
اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو
موجہ گُل کو ابھی اِذنِ تکلم نہ ملے
پاس آتی ہے کسی نرم سخن کی خوشبو
قامتِ شعر کی زیبائی کا عالم مت پُوچھ
مہرباں جب سے ہے اُس سرد بدن کی خوشبو
ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے
کُوبہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو
عارضِ گُل کو چُھوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو
کِس نے زنجیر کیا ہے رمِ آہو چشماں
نکہتِ جاں ہے انھیں دشت ودمن کی خوشبو
اِس اسیری میں بھی ہر سانس کے ساتھ آتی ہے
صحنِ زنداں میں اِنھیں دشت وطن کی خوشبو
ہم آسمان ہو جاتے
چُپ نہ رہتے بیان ہو جاتے
تجھ سے گر بدگُمان ہو جاتے
تیرے دل کی زمین ہی نہ مِلی
ورنہ ہم آسمان ہو جاتے
ڈھونڈتا وہ بھی
میں اُس کی کھوج میں دیوانہ وار پھرتی رہی
اسی لگن سے کبھی مجھ کو ڈھونڈتا وہ بھی
کیا دیکھے۔۔
تیرے سوا بھی کئی رنگ خوش نظر تھےمگر۔۔
جو تجھ کو دیکھ چکا ہو وہ اور کیا دیکھے۔۔!!
1 comment:
good
https://rsmpak.blogspot.com/2021/11/welcome-autumn-beauty-of-pakistan.html
Post a Comment